۱۔ روشنی کی کِرن ڈُھونڈتا مَیں۔ شب کے پہر میں بھاگا صحرا میں مَیں، آسماں پر تارے کی آس میں ...کہ گھر کی راہ دِکھلائے۔ بار ہا کوشِش کی مَیں نے، مگر خود کو دکھ پہنچایا سب کرتے کرتے لیکن۔ جانوں شُعلہ بھڑکایا، بڑھایا ہاتھ میرے لیے۔ ہاں، تُو۔ بِیتا جیون جو دیکھوں، مَیں دورِ سیاہ موجُود تھا تُو۔ میری پشیمان رُوح کو، یُوں تھاما کہ ہُوں انمول۔ تُو ہی تھا۔ تھا مَیں نادار تُو نے دی پناہ۔ طوفانی موجوں کو سکوت بخشا۔ خُود کو پایا، تُجھے پاکر ۔ ۲۔ راکھ سے آگ سے ہُوا مَیں پاک۔ پایا نیا نظریہ آنکھیں ہوئیں جو چاک اپنی۔ پستیوں سے بُلندیوں تک، کبھی تنہا نہ چلا۔ سمُندر ٹکرائے ڈبوئے مُجھے جب، تیرا پیار مُجھے لائے ساحل تک۔ کہ اب تُو ہے رہنُما میرا ۔ بتا مُجھے جانا کہاں۔ ہاں، تُو۔ بِیتا جیون جو دیکھوں، مَیں دورِ سیاہ موجُود تھا تُو۔ میری پشیمان رُوح کو، یُوں تھاما کہ مَیں ہُوں انمول۔ تُو ہی تھا۔ تھا مَیں نادار تُو نے دی پناہ۔ طوفانی موجوں کو سکوت بخشا۔ خُود کو پایا، تُجھے پاکر ۔ بِیتا جیون جو دیکھوں، مَیں دورِ سیاہ میری پشیمان رُوح کو، یُوں تھاما کہ مَیں ہُوں انمول۔ تھا مَیں نادار تُو نے دی پناہ۔ طوفانی موجوں کو سکوت بخشا۔ خُود کو پایا، تُجھے پاکر ۔